وہ فقط آٹھ سال کی چھوٹی سی بچی تھی اسے کچھ زیادہ سمجھ بوجھ بھی نہیں تھی مگر پریشان تھی کہ اس کا چھوٹا بھائی بیمار تھا اور اس کے ماں باپ کے پاس اس کے علاج کے لیے کوئی پیسے نہیں تھے وہ ڈاکٹر کا بل اور اپنے بڑے گھر کا کرایہ دینے سے قاصر تھے مجبوری کی وجہ سے وہ چند دنوں کیلئے ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں شفٹ ہونے کا سوچ رہے تھے اس کے بھائی کا علاج سرجری سے ممکن تھا اور سرجری بہت مہنگی تھی۔ اس نے دیکھا کہ اس کا باپ مایوس اور پریشان کن ہے اور اس کی ماں سے کہہ رہاہے کہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں اور اس بچے کو بچانے کیلئے ایک معجزے کی ضرورت ہے۔ باپ کو اس قدر پریشان دیکھ کر وہ بھی پریشان ہوگئی اپنے کمرے میں گئی اور گدی کے نیچے بستر پر چھپایا ہوا ایک جار نکالا اس جار میں کچھ پیسے تھے جو اس نے اپنی جیب خرچ سے بچا کر رکھے تھے اس نے اردگرد دیکھا کہ کوئی نہیں دیکھ رہا تھا اس نے جلدی جلدی پیسے پہلے ایک بار پھر دوسری بار پھر تیسری بار جب اسے یقین ہو گیا کہ اسکی گنتی پوری طرح ٹھیک ہے ان نے وہ پیسے بڑی احتیاط سے اپنی جیب میں ڈالے‘ باہر نظر ڈالی ماں باپ بیمار بھائی کے قریب پریشانی میں بیٹھے تھے۔ وہ چپکے چپکے دروازے پر پہنچی اور قریبی میڈیکل سٹور کی جانب چل پڑی، میڈیکل سٹور پر رش تھا کائونٹر پر کچھ لوگ کھڑے تھے اور کائونٹر کے پیچھے فارماسسٹ لوگوں سے لین دین میں مصروف تھا۔ بچی نے کوشش کی کہ اس سے بات کرے مگر کاونٹر اس کے قد سے بلند تھا اور لوگ بھی موجود تھے لوگ کچھ کم ہوئے تو فون آگیا اور فارماسسٹ فون سننے میں مصروف ہوگیا بچی نے اُچھل کر پیسے کائونٹر پر رکھ دیئے اور اس سے کچھ کہنے کی کوشش کی۔ فارماسسٹ نے اسے جھڑک دیا اور کہنے لگا کہ میرے بھائی کا فون ایک عرصے کے بعد میں آیا ہے چپ کرو مگر بچی مسلسل چیختی رہی۔ آخر کار فارماسسٹ نے
فون رکھا اور ناراض لہجے میں بولا کہ کیوں شور کررہی ہو؟ کیا چاہیے؟ بچی نے بھی اسی انداز میں جواب دیا کہ میں اپنے بھائی کے بارے میں تم سے بات کرنا چاہتی ہوں تم سنتے ہی نہیں‘ وہ بہت بیمار ہے میرے ابو کے پاس پیسے نہیں ہیں‘ وہ کہتے ہیں کہ اس کے علاج کیلئے دوا کی ضرورت ہے میں یہ پیسے لائی ہوں مجھے معجزہ خریدنا ہے‘ فارماسسٹ نے حیران ہو کر پوچھا بیٹا کیا کہہ رہی ہوں‘ مجھے سمجھ نہیں آئی‘ بچی پھر بولی کہ میرا ایک چھوٹا بھائی ہے وہ سخت بیمار ہے اسکے سر میں کچھ ہوگیا ہے‘ ماما اور پاپا کے پاس پیسے نہیں ہیں فارماسسٹ بڑے پیار سے بولا کہ مجھے افسوس ہے میں تمہاری مدد نہیں کرسکتا۔ میرے یہ پیسے گن لو کم ہوتو بتائو میں کچھ اور لادوں گی مگر جیسے بھی ہو مجھے دوا دے دو، میرے بھائی کی زندگی کا سوال ہے۔ بچی نے التجا کی تو فارماسسٹ کا ایک بھائی جو اس سے ملنے آیا ہوا تھا وہ اس کی باتیں سن رہا تھا وہ آگے بڑھا اور بڑے پیار سے بچی سے مخاطب ہوا بتائو تمہیں کس طرح کی دوا چاہیے؟ بچی نے جواب دیا کہ مجھے کچھ پتہ نہیں بس مجھے دوائی دے دو جس سے میرا بھائی بچ جائے۔ ماما کہتی ہیں کہ اس کا آپریشن ہوگا، پاپا کہتے ہیں کہ اسے معجزہ بچائے گا چونکہ میرے پاپا کے پاس پیسے نہیں ہیں میں نے جو پیسے جیب خرچ سے بچائے تھے وہ میں لے آئی ہوں۔تمہارے پاس کتنے پیسے ہیں؟ اس کے بھائی نے پوچھا بچی نے ڈیڈباتی آنکھوں سے جواب دیا ’’ایک ڈالر اور گیارہ سینٹ‘‘ مگر آپ کو کچھ کم لگیں تو میں آپ کو اور لادونگی مگر کسی طرح دوائی دے دیں تاکہ میرا بھائی بچ جائے۔ فارماسسٹ کے بھائی نے اس بچی کی خود اعتمادی کو دیکھ کر وہ رقم اس سے لے لی اور دوسرے ہاتھ میں اس کا ہاتھ پکڑکر بولا کہ ہمارے پاس بہت سی دوائیاں ہیں تم مجھے اپنے گھر لے چلو میں تمہارے بھائی کو دیکھنا چاہتا ہوں تاکہ پتہ چل سکے کہ اسے کونسی دواکی ضرورت ہے بچی خوش ہوگئی اور اس کی انگلی پکڑ کر اپنے گھر کو چل دی۔ بچی کے ہمراہ اس کے گھر جانے والا شخص امریکہ کا مشہور ’’نیوروسرجن ڈاکٹر کارلٹن آمسٹرنگ‘‘ تھا بچے کے دماغ کا مفت آپریشن ہوا اور وہ ٹھیک ہوگیا اور کچھ عرصے کے بعد بچہ ہنستا کھیلتا اپنے گھر واپس آگیا ماں اور باپ کی سوچ سے ہٹ کر کہ پتہ نہیں اس کے علاج پر اس قدر خرچ ہوگا مگر بہرحال یہ ایک معجزہ ہی تھا جسے ان کی بیٹی کی خوداعتمادی نے ممکن بنایا تھا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں